بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں جاری احتجاجات اور مظاہروں کا سلسلہ محض عوامی مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف ایک مخصوص بیانیہ پھیلانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ ان مظاہروں کے دوران عام شہریوں کی زندگی کو مفلوج کیا جا رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد عوام میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کو فروغ دینا اور دہشت گرد عناصر کے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔
آج بلوچستان کے مختلف 9 مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے جن کی بنیاد تین مختلف واقعات پر رکھی گئی ہے۔ ان میں اسماء بلوچ کے اغوا، اللہ داد بلوچ کے قتل اور مبارک و علی بلوچ کی گمشدگی شامل ہیں۔ تاہم، ان واقعات کا ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کوئی تعلق نہیں، مگر انہیں ایک منظم طریقے سے ریاست مخالف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسماء بلوچ کا اغوا ایک ذاتی اور قبائلی تنازعے کا نتیجہ تھا جس میں کسی ریاستی ادارے کی مداخلت ثابت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود، بلوچ یکجہتی کمیٹی اسے ریاستی جبر کے طور پر پیش کر کے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر یہ واقعہ ذاتی نوعیت کا ہے تو پورے بلوچستان میں اس پر ریاست مخالف احتجاج کی کیا منطق ہے؟
اللہ داد بلوچ کے قتل کا واقعہ بھی واضح طور پر دہشت گرد عناصر کی کارروائی ہے۔ اللہ داد ایک طالب علم تھا جو دیگر علاقوں میں تحفظ کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا، مگر بلوچستان واپسی پر دہشت گردوں کا نشانہ بنا۔ حیرت انگیز طور پر، بلوچ یکجہتی کمیٹی ان دہشت گردوں کی مذمت کرنے کے بجائے ریاستی اداروں کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے، جو سراسر غلط اور حقیقت کے برعکس ہے۔
اسی طرح مبارک اور علی بلوچ کی گمشدگی کے معاملے میں بھی سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ دونوں نوجوانوں نے اپنی مرضی سے عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑا تھا، جیسا کہ بلوچستان میں پہلے بھی کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ مگر بلوچ یکجہتی کمیٹی اسے بھی ریاستی جبر کے طور پر پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ رویہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے جو حقیقی مسائل کے حل کے بجائے ریاست مخالف بیانیے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ وہ ان دہشت گرد گروہوں کی مذمت نہیں کرتے جو بلوچستان میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، بلکہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے ذریعے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلوچستان میں ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ عوام ان سازشی بیانیوں کی حقیقت کو پہچانیں اور ایسے عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے گریز کریں جن کے عزائم صرف اور صرف دشمن قوتوں کے مفادات کی تکمیل ہیں۔ احتجاج ایک جمہوری حق ہے، مگر اسے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بلوچستان کے مستقبل کے ساتھ خطرناک کھیل کھیلنے کے مترادف ہے۔
Leave a Reply