بلوچستان میں ایک بار پھر یکجہتی کمیٹی اور اس کے سرپرستوں نے ایک نوجوان کی لاش پر ریاست مخالف بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی، مگر حیات سبزل کے لواحقین نے اس پروپیگنڈہ کو مسترد کر کے یکجہتی کمیٹی کے نام نہاد دھرنے کو ختم کروا دیا۔ حیات سبزل، جسے پہلے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اسلحے کے زور پر اغوا کر کے پہاڑوں پر لے جایا، پھر اسی تنظیم کی پراکسی یکجہتی کمیٹی نے اس کی جبری گمشدگی کا پروپیگنڈہ کر کے ریاست پر الزامات لگائے۔
یہی نہیں، بلکہ جب بی ایل اے نے سفاکی سے حیات سبزل کو قتل کر کے اس کی لاش ویرانے میں پھینکی، تو یکجہتی کمیٹی کو ایک اور موقع مل گیا کہ وہ ریاست پر انگلیاں اٹھائے۔ بلوچ عوام کو بار بار اسی چال میں الجھایا جا رہا ہے: پہلے دہشتگرد گروہ نوجوانوں کو اغوا کر کے قتل کرتے ہیں، پھر ان کے پراکسی گروہ ریاست کو بدنام کرنے کے لیے لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔
یہی حکمت عملی گزشتہ کئی سالوں سے دیکھی جا رہی ہے۔ ماضی میں یہی کردار بی ایس او آزاد ادا کر رہی تھی، لیکن جب عالمی اداروں نے اسے دہشتگردوں کی حمایت پر بین کر دیا، تو یکجہتی کمیٹی جیسے نئے گروہ وجود میں آ گئے۔ یہ گروہ بی ایل اے کی فکری اور عملی ترجمانی کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کے قتل کو ریاست مخالف بیانیے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچ عوام اب مزید ان سازشوں کا شکار نہیں بنیں گے۔ حیات سبزل کے لواحقین کی جانب سے پروپیگنڈہ مسترد کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام ان دہشتگرد گروہوں کی حقیقت کو پہچان چکے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو ان گروہوں کے چنگل سے آزاد کروا کر امن اور ترقی کے راستے پر گامزن کیا جائے۔
Leave a Reply