بلوچستان میں دہشتگرد تنظیمیں نہ صرف ریاست کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں بلکہ معصوم بلوچ خواتین کو بھی اپنی وحشیانہ سازشوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ قلات میں حالیہ خودکش حملے کی تحقیقات سے یہ افسوسناک انکشاف ہوا کہ جس بلوچ خاتون کو خودکش بمبار کے طور پر استعمال کیا گیا، اسے پہلے بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق، اس خاتون کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنا کر اسے بلیک میل کیا گیا، جس کے بعد اسے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بی ایل اے جیسے دہشتگرد گروہ نے بلوچ خواتین کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کیا ہو۔ ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں مجبور اور کمزور خواتین کو زبردستی خودکش حملوں کے لیے تیار کیا گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر، یہی تنظیمیں خود کو بلوچ حقوق کے علمبردار قرار دیتی ہیں۔ اگر ایک بلوچ خاتون کی تصویر شائع ہونا ان کے نزدیک غیر اخلاقی ہے تو پھر اسے خودکش بمبار بنا کر اس کے جسم کے ٹکڑے کرنا کس اخلاقیات کے تحت جائز ہے؟
بلوچ معاشرے میں خواتین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جب دہشتگرد تنظیموں نے انہیں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تو ان کے اپنے حمایتی بھی بدظن ہو گئے۔ قلات میں خودکش حملہ کرنے والی خاتون کے خاندان کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عام بلوچ عوام ان دہشتگرد عناصر کو مسترد کر چکے ہیں۔
بلوچ خواتین کو خودکش بمبار بنانے کا یہ سلسلہ کسی بھی زاویے سے ایک نظریاتی جنگ کا حصہ نہیں بلکہ ایک گھناونی سازش ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف دہشتگرد گروہوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اس خاتون کی زندگی چھین کر بی ایل اے نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بلوچ عوام کے خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں۔ ریاست اور سوسائٹی کو مل کر ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ آئندہ کسی اور معصوم کو اس درندگی کا نشانہ نہ بنایا جا سکے۔
Leave a Reply