حب چوکی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد کی گئی آگاہی ریلی کے دوران پیش آنے والا واقعہ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ سمی دین بلوچ کی قیادت میں کمیٹی نے ایک عام بلوچ شخص کو “مشکوک” قرار دے کر عوام کے سامنے زبردستی روکا اور ہراساں کیا۔
واقعے کے مطابق، حب چوکی میں ریلی کے دوران، کمیٹی کے ارکان نے ایک شخص پر اسلحہ رکھنے کا الزام لگایا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ مزید دو افراد کو بھی شک کی بنیاد پر روکا گیا اور ان کے موبائل فونز کی تلاشی لی گئی۔ کمیٹی کے مطابق، ان فونز میں ریلی کے شرکاء کی تصاویر اور ویڈیوز پائی گئیں۔
دوسری جانب، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ افراد عام شہری تھے اور ان پر لگائے گئے الزامات محض پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سمی دین بلوچ اور ان کی ٹیم نے خواتین کارڈ استعمال کرتے ہوئے ان افراد کو بلا جواز ہدف بنایا، جو کہ بلوچ ثقافت اور اقدار کے خلاف ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بلوچ یکجہتی کمیٹی پر تنقید کی گئی ہو۔ اس سے قبل بھی کمیٹی نے مختلف احتجاجی سرگرمیوں کے دوران مقامی لوگوں کو شک کی بنیاد پر روک کر ان کی تذلیل کی ہے۔ ایسے واقعات سے نہ صرف عوام میں بےچینی پیدا ہو رہی ہے بلکہ یہ تنظیم کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حب چوکی کے واقعے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرکے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچ عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ عام شہریوں کو غیر ضروری ہراسانی سے بچایا جا سکے۔
Leave a Reply