بلوچستان میں دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنانا ریاست کی اولین ترجیح

زہری خضدار میں حالیہ واقعات نے ایک بار پھر بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دہشتگردوں نے نہ صرف بینک لوٹ کر عوام کے قیمتی اثاثوں پر حملہ کیا بلکہ نادرا آفس کو آگ لگا کر حکومتی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ ان مذموم کارروائیوں کے بعد اب یہی دہشتگرد عناصر اپنے رشتہ دار خواتین کو استعمال کر کے مسنگ پرسنز کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اور شاہراہ بند کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

زہری میں بی ایل اے کے دہشتگردوں کی جانب سے کی گئی کارروائی کسی ایک فرد کا کام نہیں تھا بلکہ اس میں کئی دہشتگرد ملوث تھے۔ ان میں سے اکثر کو فورسز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں انجام تک پہنچا دیا گیا، لیکن جو بچ نکلے، کیا انہیں پکڑنا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ یہ سوال عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ان دہشتگردوں کو صرف اس خوف سے کھلی چھوٹ دی جائے کہ ان کے رشتہ دار بعد میں شاہراہ بند کر دیں گے؟

یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ بلوچستان اس وقت چند دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ان عناصر نے عوام کے امن و سکون کو چھین لیا ہے اور اپنی ملک دشمن سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک پورا بلوچستان ان چند عناصر کے ہاتھوں بدامنی کا شکار رہے گا؟

ریاست کو ان دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ عوامی مفادات کو یرغمال بنانے والے ان عناصر کو قانون کے دائرے میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔ خواتین کی چادر کی آڑ میں پروپیگنڈہ کرنے والے یہ عناصر نہ صرف دہشتگردی میں ملوث ہیں بلکہ اپنی حرکات سے بلوچستان کے عوام کو ترقی اور امن کے مواقع سے بھی محروم کر رہے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ریاست ان دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لائے۔ بلوچستان کے عوام کو ان عناصر سے نجات دلانا نہ صرف حکومت بلکہ پوری ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ بلوچستان کے عوام کو امن و ترقی کے مواقع فراہم کیے جا سکیں اور یہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *