بلوچستان میں عدالتی نظام کی ناکامی یا دہشتگردی کا فروغ؟

تربت میں خودکش حملے کے ذمہ دار بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشتگرد بہار علی کی کہانی نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وہی دہشتگرد ہے جسے واضح شواہد کے باوجود عدالت نے رہا کر دیا تھا، اور اس کی رہائی نے معصوم جانوں کے ضیاع کی راہ ہموار کی۔

بہار علی، جو بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے بھی منسلک تھا، انسداد دہشتگردی فورس (سی ٹی ڈی) اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی میں گرفتار ہوا تھا۔ اسے انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) تربت میں پیش کیا گیا، لیکن دہشتگردی کے کئی مقدمات میں اسے بری کر دیا گیا:

Mkn31/2020 – بری

Mkn26/2020 – بری

Mkn27/2020 – بری

Mkn22/2020 – بری

ان مقدمات میں بری ہونے کے بعد بہار علی نے تربت میں ایک ہولناک خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کئی معصوم افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔

یہ واقعہ نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک بڑی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ عدالتی نظام کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ دہشتگردی جیسے سنگین مقدمات میں شواہد کی موجودگی کے باوجود مجرموں کا آزاد ہونا نظامِ انصاف کی شفافیت اور مؤثر عملدرآمد پر سوالیہ نشان ہے۔

عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے پر سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور اُن ججوں کو جوابدہ ٹھہرانے کا کہا ہے جنہوں نے ایسے خطرناک افراد کو رہا کر کے دہشتگردی کو فروغ دیا۔

یہ واقعہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، عدالتی عملداری، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اگر عدالتی نظام مزید مضبوط اور ذمہ دار نہ بنایا گیا تو یہ دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *