بلوچستان میں بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والی پروپیگنڈہ تنظیم بی وائی سی کی جانب سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر غیر بلوچ آبادی کی نسل کشی کے الزامات لگانے کے باوجود حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پچھلے دو دہائیوں میں بلوچستان میں موجود بی وائی سی کی عسکری تنظیموں نے غیر بلوچوں کی نسل کشی میں حصہ لیا ہے۔ ان دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھوں بے شمار پڑھے لکھے، محنت کش، اور روزگار کی تلاش میں آئے ہوئے غیر بلوچوں کا خون بہایا گیا ہے۔
جون 2009 میں بی ایل اے نے قلات میں انور بیگ نامی اسکول ٹیچر کو شہید کر دیا تھا کیونکہ وہ بلوچ دہشتگرد تنظیموں کے ترانوں کے خلاف تھے اور انہوں نے ان ترانوں کو اسکولوں میں پڑھنے کی سخت مخالفت کی تھی۔ جنوری 2010 میں بی ایل اے نے خضدار میں پنجاب کے رہائشی ڈاکٹر فہیم سجاد کو ان کے کلینک میں شہید کر دیا تھا، جو خضدار کے عوام کے لئے ایک مسیحا تھے اور ایک مشہور کارڈیالوجسٹ تھے۔ اسی سال اپریل میں بی ایل اے نے اسسٹنٹ پروفیسر ناظمہ طالب کو لسانی بنیاد پر شہید کر دیا، جو یونیورسٹی آف بلوچستان میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی ایک اہم شخصیت تھیں اور صوبے کے طلبہ و طالبات کے لئے رول ماڈل سمجھی جاتی تھیں۔
جولائی 2012 میں بی ایل اے نے سات پشتون مزدوروں کو کوئٹہ کے قریب اغوا کرکے شہید کر دیا۔ اگست 2013 میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے گیارہ مسافروں کو مچھ کے مقام پر بس سے اتار کر شہید کر دیا گیا۔ سال 2017 میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے دس سندھی مزدوروں کو گوادر میں شہید کر دیا گیا۔ اکتوبر 2023 میں تربت میں چھ بے گناہ مزدوروں کو بی ایل اے نے ان کے گھروں میں گھس کر شہید کر دیا، جبکہ نومبر 2023 میں ناصر آباد پولیس اسٹیشن میں پناہ لینے والے چار پنجابی مزدوروں اور ایک پولیس کانسٹیبل کو شہید کر دیا۔
مئی 2024 میں بی ایل اے نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کو گوادر کے علاقے سربندر میں اس وقت شہید کر دیا جب وہ سو رہے تھے۔ ان تمام شہید ہونے والے افراد کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ روزی روٹی کی تلاش میں بلوچستان آئے تھے تاکہ یہاں کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ لیکن یہ دہشتگرد تنظیمیں صوبے کی ترقی کی دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں معصوم افراد کا خون بہایا گیا ہے۔
یہ تمام واقعات بی وائی سی اور اس کی عسکری تنظیموں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں، جو بلوچستان میں غیر بلوچوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں اور صوبے کی ترقی کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
Visit Quick Scholar website for more updates.
Leave a Reply