وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا امن، ریاستی استحکام اور ترقی سے متعلق واضح مؤقف

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گرد کسی طور قوم پر اپنا نظام مسلط نہیں کر سکتے اور نہ ہی ریاست مخالف بیانیے کو کوئی جگہ دی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام ہمیشہ سے ریاست اور اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور یہ ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ممنوعہ جماعتوں پر پابندی کا اختیار وفاق کے پاس ہے، اور اگر صوبائی رائے طلب کی گئی تو کابینہ سے مشاورت کے بعد جواب دیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو ماضی میں ایک بے مقصد جنگ کی طرف دھکیلا گیا، لیکن ریاست نے ہمیشہ مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ بگٹی میں تقریباً ایک سو عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپسی کا فیصلہ کیا ہے، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ان کے مطابق 2018-19 میں یہی لوگ پہاڑوں پر چلے گئے تھے، تاہم اب دوبارہ واپس آ کر ریاست کو اپنا گھر مانا ہے اور حکومت نے انہیں خوش دلی سے قبول کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ادارے یا حکومت کی نہیں، پوری قوم کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ اس دوران انہوں نے اس سیاسی جماعت پر بھی تنقید کی جو ان کے مطابق شہرت پر مبنی بیانیے کے ذریعے سیاست کر رہی ہے، جبکہ ضمنی انتخابات نے اس بیانیے کی اصل حقیقت واضح کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاست، افواج اور قومی قیادت کے خلاف باقاعدہ ایک مخالفانہ تاثر پھیلایا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں نہ کوئی ملٹری آپریشن ہو رہا ہے اور نہ ہی طاقت کا بے جا استعمال، صرف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں جاری ہیں۔

اپنے خطاب میں انہوں نے خیبر پختونخوا کے حالات پر بھی بات کی اور کہا کہ صوبے کے عوام کو اس وقت امن، مضبوط گورننس اور ترقیاتی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو سیاسی محاذ آرائی سے نکل کر عوامی مسائل اور وفاق کے ساتھ سنجیدہ مکالمے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی مکمل توثیق کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا دہشت گردوں کو اسلام آباد تک آنے کی اجازت دی جائے؟

میر سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کی کارکردگی ڈیجیٹل فنانشل سسٹمز میں نمایاں رہی، جو مؤثر پالیسیوں اور شفافیت کا نتیجہ ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں 3200 غیر فعال اسکولوں کا کھل جانا اور 17 ہزار اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی ایک بڑی کامیابی ہے جس نے تعلیمی نظام میں بہتری پیدا کی۔ اسی طرح دور دراز علاقوں میں اسپتالوں کا قیام عوام کو بنیادی صحت کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے، جس سے معاشرتی شمولیت اور حکومتی اعتماد میں اضافہ ہوا۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی رائے میں خیبر پختونخوا کی قیادت کو محاذ آرائی کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دینی چاہیے۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی بھی موجود تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *