بلوچستان میں حالیہ واقعات نے ایک بار پھر نام نہاد فیک احتجاجات اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے عناصر کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مختلف رپورٹس اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، مسنگ پرسن کے نام پر احتجاج کرنے والی خاتون زرینہ بلوچ کے متعلق یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وہ ایک خودکش حملے کی منصوبہ بندی میں شامل پائی گئی۔ اگرچہ ایسے معاملات میں حتمی حقائق کا تعین ہمیشہ تحقیقات کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے، لیکن یہ صورتحال اس تلخ حقیقت کو ضرور ظاہر کرتی ہے کہ کچھ گروہ خواتین سمیت نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ ایسے کیسز میں اکثر وہی آوازیں سامنے آتی ہیں جو گرفتاریوں یا کارروائیوں کو روایات کے نام پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، لیکن جب بیانیہ الٹ ثابت ہو تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشرے کی عزت، امن اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والوں پر آواز کب اور کون اٹھائے گا؟ ایسے عناصر نہ صرف ریاست بلکہ خود بلوچ سماج کے سب سے بڑے دشمن ہیں، کیونکہ وہ کمزور ذہنوں کو استعمال کرکے انہیں تباہی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایسے واقعے کو نہ صرف شفاف تحقیقات کے تحت دیکھا جائے بلکہ اس بیانیے کی بھی بیخ کنی کی جائے جس کے ذریعے خواتین سمیت نوجوانوں کو جذباتی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شدت پسندی، برین واشنگ اور جھوٹے احتجاجی بیانیوں کا مقابلہ تب ہی ممکن ہے جب معاشرہ، سیاسی قیادت اور میڈیا ذمہ داری کے ساتھ حقائق کی بنیاد پر گفتگو کو فروغ دیں۔













Leave a Reply