بلوچستان میں پائیدار ترقی اور ماحولیاتی استقامت کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور بلوچستان اس کے براہِ راست اثرات کا سامنا کرنے کے باوجود ترقی کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خشک سالی، غیر معمولی بارشوں، سیلاب، گرمی کی شدید لہروں اور موسم کی بے ترتیبی نے صوبے کے معاشی و سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، جب کہ غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اسی سیاق میں انہوں نے بتایا کہ صوبے کے 51 فیصد گھرانے آمدنی کی غربت اور 71 فیصد آبادی کثیرالابعاد غربت کی صورتحال سے دوچار ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی تیار کی ہے جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور پانی کے شعبوں میں موافقت (Adaptation) اور تخفیف (Mitigation) کے لیے واضح حکمت عملی شامل ہے۔ قابلِ تجدید توانائی خصوصاً شمسی اور ہوائی منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے تاکہ فوسل فیول کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں الیکٹرک گاڑیوں اور ماحول دوست انفراسٹرکچر کو فروغ دینے پر بھی کام ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں کنزرویشن ایگریکلچر اور ایگرو فاریسٹری جیسے طریقوں کو فروغ دے کر نہ صرف غذائی تحفظ بہتر بنایا جا رہا ہے بلکہ کاربن اخراج میں بھی کمی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پانی کے شعبے میں مؤثر نظم و نسق اور جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی صوبہ کئی اہم اقدامات کر رہا ہے۔
میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ کاربن ٹریڈنگ بلوچستان کے لیے ایک بڑا موقع ہے جس کے ذریعے موسمیاتی فنانس تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ اس سلسلے میں صوبہ کاربن مارکیٹ کے لیے مضبوط فریم ورک تشکیل دے رہا ہے جس میں نیلے کاربن (Blue Carbon) منصوبے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سندھ کے ڈیلٹا بلیو کاربن پروجیکٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان بھی ایسی کامیاب سرگرمیوں کے ذریعے عالمی موسمیاتی اہداف کا حصہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان کلائمٹ چینج فنڈ صوبے میں موافقت، تخفیف اور استعداد کار بڑھانے والے منصوبوں کی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ قومی موسمیاتی اہداف کے لیے صوبائی سفارشات میں بھی پائیدار ترقی اور کم کاربن اخراج کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔
آخر میں وزیر اعلیٰ نے تمام اداروں، بین الاقوامی تنظیموں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی پر زور دیا کہ موسمیاتی بحران کا مقابلہ مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو اجتماعی کوششوں کا تسلسل ناگزیر ہے۔ انہوں نے سمپوزیم کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ مشترکہ کاوشیں جاری رہیں گی اور موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات مزید مؤثر ثابت ہوں گے۔
#climatebalochistan #SustainableBalochistan













Leave a Reply