بلوچستان: دو سال کی جدوجہد اور امن کی بحالی

دو برس قبل بلوچستان کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا تھا جس پر حکومتیں ہاتھ ملتے رہ گئیں، لیکن ریاستی اداروں کی سخت محنت اور مسلسل اقدامات نے حالات کا رخ بدل دیا۔ اس عرصے میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو توڑا گیا اور ہر اس شخص کو اس کے انجام تک پہنچایا گیا جو صوبے کے امن کے راستے میں رکاوٹ بنا۔ ملک کے قوانین کے تحت غداروں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی وہی مؤثر کارروائیاں ہوئیں جو دنیا بھر میں رائج ہیں۔

آج کا بلوچستان ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ سڑکیں پرامن ہیں اور کہیں بھی کسی قوم پرست گروہ یا بی وائی سی کے پروپیگنڈے کی آڑ میں راستے بند نہیں کیے جاتے۔ ایسے مؤثر اور جامع قوانین منظور ہوئے جن کے نتیجے میں مسنگ پرسنز کے کیس نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اگر بی وائی سی سے لے کر ماما قدیر کے کیمپ تک کا جائزہ لیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے کہ اب شکایات میں نمایاں کمی آچکی ہے۔

وہ خواتین جو صوبے کے اندر پروپیگنڈہ نہیں پھیلا سکیں، وہ اسلام آباد میں پرانی تصاویر لے کر بیٹھی ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کسی نہ کسی حملے یا سازش سے تعلق رہا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے اندر پروپیگنڈہ کی فضا کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔

یہ سفر آسان نہیں تھا۔ دو سال کی سخت محنت، قربانی اور عزم کے بعد صوبہ ایک ایسے موڑ پر پہنچا ہے جہاں نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے دہشت گردوں یا قوم پرستوں کے پاس جانے کے بجائے ریاست پر اعتماد کرتے ہیں۔ آج مسائل کا حل ریاستی ادارے فراہم کر رہے ہیں اور یہ اعتماد بلوچستان کے مستقبل کو ایک نئی امید دے رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *